Sunday 15 September 2013

کانچ کہانی




وہ تجهے تجهہ کو دکهاوے- سنورنے کی آرزو جاگے تو روبرو آوے- تیرے گهر میں گهر کیے ہوئے کب سے تجهے خوب دلکش لاگے- اپنے گهونسلے سے باہر بهی اس کا ذوق دید اکثر ستاوے کہ تو اسے اپنے پاس بهی رکهے تو بس پهر... "جب ذرا گردن جهکائی دیکهہ لی
تیرا ہر آغاز سحر اسے دیدنی سمجهے... کہ دن بهر بذات اس کے تیرے نین نقش تجهہ پہ عیاں ہوویں کہ پهر شام تک لاشعور اپنی ہی اداوں کے سحر میں گرفتار رہے- گویا سرگزشت اس دیوار پر لگے شیشے کی
 مرہون منت ہو جاوے کہ جب تک نہ دیکهے چین نہ آوے


پهر اک روز اک جهگڑے سے واپسی
 پر تیز رفتار گاڑی دہلیز پہ آکر رکی
 تو نے گهر کا دروازہ پٹخا اور کمرے میں داخل ہو کر اسی شیشے کے سامنے کهڑا ہوا- فرط اشتعال میں سگریٹ جلایا- اور دهواں شیشے پر پهونکا... گویا خود پر... ہاتهوں کو میز پر جمایا تو سانس نے مزید رفتار پکڑی- ہر گزرتے لمحے کے ساتهہ چہرہ غصے سے سرخ ہوتا چلا گیا حتی کہ میز پر پڑے گلاس کو اٹها کر پورے زور سے شیشے میں دے مارا- اک چیخ بلند ہوئی اور اگلے ہی لمحے فرش پر شیشے کے چهوٹے چهوٹے ٹکرے بکهرے پڑے تهے- پهر یونہی ہانپتے ہوئے خود کو
جهنجهوڑا اور یوں نیند کے آغوش میں ہو لیا


اب کے جب صبح ہوئی تو فہد پر عجیب کیفیت طاری تهی- اب تک کی ساری کہانی ایک ٹیپ کی طرح اس کے ذہن میں چل رہی تهی- جیسے کوئی انجان آواز ماضی کے صفحے تل رہی ہو- کمرے میں نظر دوڑائی تو ہر طرف کانچ کے بکهرے ہوئے ٹکڑے دکهائی دئیے- ہمیشہ کی طرح آج بهی سنورنے کا خیال آیا لیکن خود کو روبرو نہ پایا- فریم میں اب شیشہ نہ رہا- عکس کی آرزو بےچین راہوں پہ نکل پڑی- فرش پر بکهرے سیکڑوں ٹکڑوں میں سیکڑوں چہرے... اور ہر چہرے کا رخ الگ... جیسے اپنی دنیا میں اپنا ہی قتل کر ڈالا ہو... اپنا ہی وجود جیسے ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہو... ہر ٹکڑا اک ادا کی روداد سناوے


ان دنوں جب لوگ نیا گهر بناتے تو صحن سے لگتی دیواروں کی چوٹیوں پر سیمنٹ میں شیشے کے ٹکڑے چنوا دیتے کے کوئی دیوار نہ پهلانگ سکے اور چور ڈکیت سے حفاظت ره جاوے- کانچ جسم پہ پهر جاوے تو زخم گہرا لاگے تو کیوں نہ اپنے ہاتهوں سے توڑے ہوئے شیشے کو گهر کی حفاظت کی نذر کر دیا جاوے؟ فہد نے مزدور سے کہہ کر ان ٹکڑوں کو صحن سے جڑی دیواروں کی چوٹیوں پر چنوادیا... بلکہ یوں کہئیے کہ سجوادیا... کیونکہ خواہش اب حفاظت سے زیادہ نظروں کے سامنے رہنے کی تهی- فہد نے سوچا کہ صحن میں ٹہلا کروں گا تو دیواروں کو دیکهہ کر پرانے دیدنی یار کی یاد تازہ رہ جاوے گی


یہ فہد کا مکان تها جو اسے وراثت میں ملا تها- ایک مکان اور بهی تها جو
اس نے بنایا تها اپنی دنیا کہ بحر رومان کے ایک جزیرے پر... سنبل کے پهول لگائے تهے کہ سنبل کے ہم نام تهے- وہ اپنی شخصیت میں موسیقی کا سا ساز رکهتی تهی جسے سن کر فہد نے یہ خوابوں کی دنیا سجائی تهی- سنبل کے لیے راحتوں کے سمندر میں فہد نے بہت سے طوفان دیکهے- ساحل سمندر پہ بسے شہر سے اس خوابوں بهرے جزیرے تک کا سفر اک عرصئہ دراز پر محیط تها جس کا آغاز کراچی میں پہلی ملاقات سے ہوا- سنبل اپنی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کا بعد اب بینک میں ملازمت کر رہی تهی- فہد بهی آسٹریلیا سے تعلیم حاصل کر کے واپس پاکستان آچکا تها اور کراچی میں اپنے خاندانی کاروبار کو سنبهالے ہوا تها- والدین کے انتقال پر اسے ایک مکان وراثت میں ملا تها جسے وہ اب گهر بنانا چاہتا تها اور یہ بات وہ اکثر سنبل سے کیا کرتا تها- ابتداء میں تو اجنبیت کی آڑ میں ہچکچاہٹ رہی لیکن پهر دهیرے دهیرے گنجلک سلجهنے لگی کہ دل جڑے ایسے جیسے کراچی اور سمندر ساتهہ ساتهہ... کراچی دونوں کے دل کے بہت قریب تها کہ یہاں ان کی کہانی کا اک نیا باب کهلا تها- سمندر سیاہی بنا اور ورق محبت حسین عبارتوں سے سجنے لگا- جلد ہی دونوں کو ایک ہونا تھا


عشق کے ہنرمندوں پہ جاویں تو محبوب کو اک آئینہ پاویں کہ محب کا عکس خود میں سماوے تو محبوب کہلاوے- فہد سنبل کی آنکھوں میں خود کو دیکھتا گویا سرگزشت ان آنکھوں کی مرہون منت ہو جاوے کہ جب تک نہ 
دیکهے چین نہ آوے


وہ جو رسم پیامبری تھی کراچی کی ہواؤں کا خاصا رہی- وہ جو موسم تھا 
بہار کا تها- وہ جو کراچی تها نا، وہ باغ تھا کہ جس کے پهول بوٹوں کو مالی پر بهروسہ تها کہ کاٹے گا بهی تو صرف حسن کے لئیے کہ عاشقوں کے پہرے میں محبتیں جنم لیں گی- وہ جتنی اک دوجے سے محبت کرتے اتنی ہی کراچی سے بهی کرتے تھے غرضیکہ کراچی تکلیف میں ہووے تو فہد اور سنبل کو بھی برابر درد رلاوے


پهر اک حادثاتی شام کو ساحل کی ریت نے یہ منظر بهی دیکھا کہ سنبل کنارے پر فہد کی طرف رخ کئیے کهڑی ہے لیکن فہد کا رخ اس سے پرے ہے- سر غم سے جهکا ہے اور آنسو تو جیسے ساحل پر اک اور سمندر بناویں- اب کے دو سمندر ٹکراویں تو بهنور ایسا بنے کہ کراچی معزوری کی حد تک لڑکهڑاوے پر بیساکهیاں میسر نہ آویں... فہد نے برسوں اس زمین کو اپنا آشیانہ کہا تها- سنبل کی خاطر اپنا تن، من، دهن اس بستی سے منسوب کیا تھا- مگر یہ آوارہ ہوا کا جهونکا تو جیسے سارے سپنے اڑا لے جاوے- چارسو اب امن کا ساز گم سم سا لاگے اور صدائے ناراض گونجے... وہ جس ریت پر ان دونوں کے قدم نقش تهے، وہ ریت بحر رومان کی لہروں کے ساتهہ بہتی دکهائی دیوے- اتنے
میں سنبل نے فہد کے کاندهے پہ اپنا حوصلہ مند ہاتهہ رکها تو ڈهارس بندهی- اب جو دونوں روبرو آئے تو اک دوجے کی آنکهوں میں اپنے نین نقش پهر سے تازہ کیے- پهر دونوں نے رخ کیا سمندر کے اس پار شام کے ڈهلتے سورج کی اوڑ... جیسے بانہوں میں بانہیں ڈالے اک عمر گزاری ہو- ابهی اکٹهے اک آہ بهری تھی کہ بستی کے دشمنوں نے گولیوں سے دو خواب اور چهلنی کردئیے
وہ جو اک دوجے کی زندگی کے سورج تهے، کراچی کے سورج کے ساتهہ یوں غروب ہوئے کہ فریم میں اب شیشہ نہ رہا... عکس کی آرزو بےچین راہوں پہ نکل پڑی

(سید احمد رضا)

2 comments:

  1. kaanch k parr
    mom chehray
    khaaki badan
    aur us per
    wohi be-kaar tajasus
    wohi be-sood sawal...

    ReplyDelete
  2. You should start writing for those urdu gharelo aurtaon waaley risalay ;)

    ReplyDelete